ضمیر لالہ مۂ لعل سے ہوا لبریز
ضمیر لالہ مۂ لعل سے ہوا لبریز |
Poet: Allama Iqbal |
By: Bilalk |
ضمیر لالہ مۂ لعل سے ہوا لبریز
اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز
بچھائی ہے جو کہیں عشق نے بساط اپنی
کیا ہے اس نے فقیروں کو وارث پرویز
پرانے ہیں یہ ستارے فلک بھی فرسودہ
جہاں وہ چاہیئے مجھ کو کہ ہو ابھی نوخیز
کسے خبر ہے کہ ہنگامۂ نشور ہے کیا
تری نگاہ کی گردش ہے میری رستاخیز
نہ چھین لذت آہ سحرگہی مجھ سے
نہ کر نگہ سے تغافل کو التفات آمیز
دل غمیں کے موافق نہیں ہے موسم گل
صدائے مرغ چمن ہے بہت نشاط انگیز
حدیث بے خبراں ہے تو با زمانہ بساز
زمانہ با تو نہ سازد تو با زمانہ ستیز
اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز
بچھائی ہے جو کہیں عشق نے بساط اپنی
کیا ہے اس نے فقیروں کو وارث پرویز
پرانے ہیں یہ ستارے فلک بھی فرسودہ
جہاں وہ چاہیئے مجھ کو کہ ہو ابھی نوخیز
کسے خبر ہے کہ ہنگامۂ نشور ہے کیا
تری نگاہ کی گردش ہے میری رستاخیز
نہ چھین لذت آہ سحرگہی مجھ سے
نہ کر نگہ سے تغافل کو التفات آمیز
دل غمیں کے موافق نہیں ہے موسم گل
صدائے مرغ چمن ہے بہت نشاط انگیز
حدیث بے خبراں ہے تو با زمانہ بساز
زمانہ با تو نہ سازد تو با زمانہ ستیز
ضمیر لالہ مۂ لعل سے ہوا لبریز
Reviewed by RB
on
April 10, 2017
Rating:
No comments: