جو بھی درون دل ہے وہ باہر نہ آئے گا
جو بھی درون دل ہے وہ باہر نہ آئے گا |
Poet: Ahmed Faraz |
By:Bilalk |
جو بھی درون دل ہے وہ باہر نہ آئے گا
اب آگہی کا زہر زباں پر نہ آئے گا
اب کے بچھڑ کے اس کو ندامت تھی اس قدر
جی چاہتا بھی ہو تو پلٹ کر نہ آئے گا
یوں پھر رہا ہے کانچ کا پیکر لیے ہوئے
غافل کو یہ گماں ہے کہ پتھر نہ آئے گا
پھر بو رہا ہوں آج انہیں ساحلوں پہ پھول
پھر جیسے موج میں یہ سمندر نہ آئے گا
میں جاں بلب ہوں ترک تعلق کے زہر سے
وہ مطمئن کہ حرف تو اس پر نہ آئے گا
اب آگہی کا زہر زباں پر نہ آئے گا
اب کے بچھڑ کے اس کو ندامت تھی اس قدر
جی چاہتا بھی ہو تو پلٹ کر نہ آئے گا
یوں پھر رہا ہے کانچ کا پیکر لیے ہوئے
غافل کو یہ گماں ہے کہ پتھر نہ آئے گا
پھر بو رہا ہوں آج انہیں ساحلوں پہ پھول
پھر جیسے موج میں یہ سمندر نہ آئے گا
میں جاں بلب ہوں ترک تعلق کے زہر سے
وہ مطمئن کہ حرف تو اس پر نہ آئے گا
جو بھی درون دل ہے وہ باہر نہ آئے گا
Reviewed by RB
on
April 22, 2017
Rating:
No comments: